Alfia alima

Add To collaction

جادو کا پہاڑ

جادو کا پہاڑ
(۱) 

میدان 

صبح کے چھ بجے دھوپ نے دماغ میں گھنٹے بجاناشروع کیے۔ بُش شرٹ میں مرد عورتوں جیسے معلوم ہوتے ہیں۔ سلیکس میں عورتیں مردوں جیسی معلوم ہوتی ہیں۔ پتلے سرخ ہونٹ مسکرائے۔ ’’آپ تو آج بڑے جامہ زیب نظر آرہے ہیں۔‘‘ چھوٹی چھوٹی آنکھوں نے پتلے سرخ ہونٹوں کے پیچھے لمبے نوکداردانتوں کونظرانداز کردیا۔ انسان گوشت خور جانور ہے۔ دھوپ نے دماغ پر ہتھوڑے جمائے، ’’آپ بھی تو آج بڑی خوبصورت معلوم ہو رہی ہیں۔‘‘ اور پتلے سرخ ہونٹ پھر مسکرائے۔ نیلی آنکھیں ناچیں۔ بھورے کٹے ہوئے بال ہوا میں لہرائے، ’’اوہ تھینک یو۔‘‘ اور پتلے سرخ ہونٹوں نےسیٹی بجائی۔ کتے کی مادہ دم ہلاتی ہوئی آئی۔ 

پھر دھوپ نےآنکھوں میں برچھیاں چبھوئیں۔ ہلکے آسمانی رنگ کا دوپٹہ لہرایا، شلوار پہنے ہوئے۔ الف لیلہ اور شکنتلااور صاف گوئی۔ ادب اور شاعری میں سرین کی تعریف کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ خدا نے یہ کیا عجیب و غریب چیز بنائی ہے جس کو عورت کہتے ہیں اور عورت نے یہ کیا عجیب و غریب چیز پہن رکھی ہے جس کو شلوار کہتے ہیں۔ بوٹے دار فراک نما قمیص پر ہلکا آسمانی دوپٹہ پھر لہرایا۔ موٹے عنابی ہونٹ مسکراہٹ کےلیے ذرا پھیلے اور گرمی کی شدید شکنیں دور ہوگئیں۔ پھر کالی رسیلی آنکھوں نے دو تیر جوڑے۔ ’’شیام! گیٹ کتنے بجے کھلتا ہے؟‘‘ 

’’نو بج کے دس یا بیس منٹ پر۔ بھئی مجھے یاد نہیں۔ سامان سب رکھوادیا ہے تو چلو۔‘‘ 

اور ٹوسیٹر کادل زور سےدھڑکا۔ موٹر سائیکل کے دل کی طرح۔ بش شرٹ نے اسٹیرنگ وہیل سنبھالا۔ پنجابی حسن نے اینگلو انڈین حسن اور بش شرٹ کے درمیان اپنے لیے جگہ محفوظ کر لی۔ 

’’یوکلپٹس، یوکلپٹس، یوکلپٹس، مجھے یوکلپٹس سے سخت نفرت ہے۔‘‘ اور اکسلی ریٹر پر پاؤں زور سےپڑا۔ یوکلپٹس کے سب درخت پیچھے رہ گئے۔ 

’’اچھا، سخت نفرت ہے؟‘‘ نیلی آنکھوں نے پوچھا۔ لیکن نیلی آنکھوں میں پانی ہی پانی ہوتاہے۔ تیر نہیں ہوتے۔ 

موٹے عنابی ہونٹوں سے کچھ اوپر جو دو کالی رسیلی آنکھیں چمک رہی تھیں، ان میں تیر البتہ تھے۔ ایک دم سےاسٹیرنگ وہیل چلانےوالے سخت ہاتھوں پر تیروں کی بارش ہوئی۔ بایاں رخسار، کنپٹی کے بال، ناک کی نوک کابایاں رخ، اور چوڑا شانہ بھی تیروں کی زدمیں آگئے۔ بائیں آنکھ تو مجروح بھی ہوگئی ہوتی۔ مگر سامنے سے سیلاب کی طرح امنڈتی ہوئی تارکول کی سڑک پر کھیلنےمیں منہمک تھی۔ ’’نفرت تو تمہیں بہت سی چیزوں سے ہے۔ میرے بال بنانے کے طریقے سے۔ اس خوشبو سے جو گریس لگاتی ہے۔ کیوں گریس؟ ٹی۔ ایس ایلیٹ کی شاعری سے ہوٹل کے منجیر کی حماقت آمیز مسکراہٹ سے، اپنی خطرناک ذہانت سے، آنریبل فنانس ممبر کے انگریزی لہجے سے، سر محمد عثمان کی ترکی ٹوپی سے۔۔۔‘‘ 

’’کملا، بھگوان کے لیے۔۔۔ ریس نے کھڑکی سے جادو کے پہاڑ کی طرف دیکھا۔ گھروندے بلندی پر دھندلی دھوپ میں چمک رہے تھے۔ ’’ترکی ٹوپی؟ ہاں مجھے بھی ترکی ٹوپی ایسی زیادہ پسند نہیں۔‘‘ 

موٹے عنابی ہونٹ چڑ کے مسکرائے۔ سینہ تن گیا اور شیام کے حواس نے محض لاشعور کی قوت سے اس تناؤ کو محسوس کیا۔ کملا نےکہا، ’’گریس ایسا ہے تو آؤ، ہم تم جگہ بدل لیں۔ تم میرے شوہر کے پاس یہاں بیٹھ جاؤ اور جو کہے، ہاں میں ہاں ملاتی جاؤ۔‘‘ 

سامنےدور سے ایک فوجی لاری آتی ہوئی دکھائی دی، ’’کملا ڈارلنگ، یہ بڑی بداخلاقی ہے۔‘‘ اور شیام نے آتی ہوئی فوجی لاری پر نظریں گاڑ دیں۔ 

’’مجھے بڑاافسوس ہے گریس ڈارلنگ، تم خفا تو نہیں ہوگئیں۔‘‘ اور عنابی موٹے ہونٹوں نے سرخ سرخ اینگلوانڈین رخسار کا بوسہ لیا۔ شیام کے منہ میں پانی بھر آیا۔ فوجی لاری زوں سے گزر گئی۔ کالے جمے ہوئے بال، بھورے بالوں سےالگ ہوگئے۔ 

’’یہ سور فوجی لاریوں کے ڈرائیور موٹر چلانا تو جانتے ہی نہیں۔‘‘ 

دایاں ہاتھ! فراک نماقمیص کی چپٹی ہوتی بوٹے دار آستین میں لپٹااوپر اٹھا۔ اور شیام کی گردن میں حائل ہوگیا۔ 

اور پھر راجپور۔ باغوں کاگاؤں، ہرا ہی ہرا، سبز ہی سبز، جھاڑیاں، پستہ قد جھاڑیاں جیسے نباتی شیطان، نباتی چڑیلیں۔ ایک دوسرے سےدست و گریبان، کبھی دور دور پر ایک دوسرے کوتاکتی ہوئی، شیطانی، خاردارنیتیں۔ یہ نباتی چڑیلیں۔ ابھی دیوار کےٹھنڈےفرشتے بہت دور ہیں، بہت دور، بہت اوپر۔ 

دروازہ بند تھا۔ فوجی لاریاں، ایک دو تین، پھر ایک ٹیکسی، پھر سہارنپور یوپی نمبر ۲۴۴۸ پھر ایک اسٹیشن ویگن، پھر رام پور کی ایک گاڑی۔ پھر، پھر۔ ٹوسیٹر کے قلب کی حرکت دھیمی پڑی، پھر بند ہوگئی۔ آفتاب نےنباتات تارکولکی سڑک اور کمر تک ننگےفوجی سپاہیوں کے قہقہوں میں آگ لگادی۔ لوہے کی سلاخوں کی طرح جلتی ہوئی انگلیوں نےدستی نکالی اور پیشانی اور گردن سے پسینےکا دریا اُبل پڑا۔ 

’’گرمی بہت ہے۔ ہے نہیں۔‘‘ کملانے معصومیت سے پوچھا۔ حالانکہ خود اس کے کپڑے پسینے سےجسم پر چپک رہے تھے۔ 

’’بالکل دوزخ کی طرح۔‘‘ گریس نے دھوپ کی عینک اتار کے پیشانی صاف کی۔ 

ہلکا سانولا ہاتھ پھر اپنے پتی کی گردن میں حمائل ہوا۔ کچھ فوجی سامنےکی لاری پر مسکرائے اورایک دوسرے کوایسٹ اینڈ کی خالص ترین کاکنی میں گالیاں دینےلگے۔ کملا نےلپ اسٹک نکال کے ہونٹوں کے شکنوں کےعلاج کی ذرا کوشش کی۔ پھر مایوس ہوکر اپنا سر شیام کے کندھے پر رکھ دیا۔ 

’’کملا۔ بھگوان کے لیے، اول ہی اتنی گرمی ہے۔۔۔ ذراہٹ کر بیٹھو۔‘‘ 

’’ڈارلنگ! یہ بڑی بداخلاقی ہے، خیر میں ہٹی جاتی ہوں۔‘‘ 

’’تھینک یو، معاف کرو ڈارلنگ، مگر مجھے اس کمبخت گرمی سےسخت نفرت ہے۔ اس سخت گرمی میں ڈرایو کرنےسےسخت نفرت ہے۔‘‘ 

’’تمہیں مجھی سےسخت نفرت ہے؟‘‘ 

’’کملا یہ سڑک بھی کوئی لڑنےکی جگہ ہے؟ ڈارلنگ بھگوان کی قسم مجھے تم سے بہت محبت ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اور یہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔‘‘ 

گریس نےاظہار اور ردعمل کے تمام دروازے بند کرلیے۔ اس ٹوسیٹر میں نہ شیام اور کملا تھے اور نہ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ 

جنت کا دروازہ کھلا، فوجی چیخے، لاریوں کی۔۔۔ ان بیسویں صدی کے ہاتھیوں کی چنگھاڑشروع ہوئی اور سب موٹروں نےحرکت کی۔ 

کملا اپنے محاذ پر قائم تھی۔ 

’’اب میں تمہارے پاس تو ہرگز نہ بیٹھوں گی۔‘‘ 

’’دیکھو، بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔‘‘ 

پیچھے سے دوموٹروں نے ہارن بجائے اور آگے نکل گئیں۔ 

’’نہیں میں تو تمہارے پاس ہرگز نہیں بیٹھوں گی۔ گریس مہربانی کرکے دروازہ کھولو۔ میں یہیں سے دون اور دون سے دلی واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ 

اب گریس نے ردعمل کی ضرورت محسوس کی، ’’کملا ڈارلنگ! بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔ شیام کایہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ 

’’بہرحال اب میں شیام کے پاس نہیں بیٹھوں گی۔ گریس کیا تم مجھ پر ایک عنایت کر سکوگی؟‘‘ 

’’آؤ تم یہاں بیچ میں بیٹھ جاؤ۔ میراجی چاہے گا تو تمہاری گردن میں باہیں ڈال لوں گی۔‘‘ 

بش شرٹ کاکالر، دھوپ اور گرمی سے کشتی ہار کے، بے جان ہوکے پیچھے کے گدے کے سرے پر بے جان سا ہوکے گرگیا۔ 

’’کملا، تم۔۔۔ تم بالکل ناممکن ہو؟‘‘ اور سورج کا شعلہ اس کے بھیجے کو پگھلا رہاتھا۔ 

پتلے سرخ ہونٹ مسکرائے۔ 

’’پلیس گریس۔‘‘ 

’’گریس۔ اچھا بیچ میں تم ہی آجاؤ سہی۔‘‘ 

نسوانی اعضا میں غضب کی لچک اور پیچ و خم کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کسی کے موٹر سے اُترے بغیر اور جگہ دیے بغیر گریس ہٹتی ہوئی کملا کے اوپر سے ہوکے بیچ میں بیٹھ گئی۔ 

اور چڑھائی شروع ہوئی۔ 

برق و باراں یا زلزلے کے قلم تراش نے ایک پہاڑی کو کاٹ دیا تھا اور ہر بارش میں اس سے لاکھوں کروڑوں سنگریزے جھڑتے تھے۔ جن سے آس پاس کے تمام پہاڑی نالوں کے دامن بھرے ہوئے تھے۔ 

اور پھر ایک پل آیا۔ اور باقاعدہ چڑھائی شروع ہوئی۔ تارکول کی لکیر تارکول کا سانپ بن گئی اور ہر موڑ پر گاڑی کے مسافر ایک طرف جھک سےجاتے اور رفتہ رفتہ۔۔۔ رفتہ رفتہ۔۔۔ 

پہلے شیام نے محسوس کیا کہ اس کا گھٹنا، گریس کے گھٹنےسے، اس کی ران گریس کی ران سے ان پہاڑی موڑوں پر جب مل جاتی ہے تو ایک برق سی دوڑ۔۔۔ 

اور کنکھیوں سے کملا کی طرف دیکھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ پہاڑ کی ڈھلوان اور یہ درخت۔ یہ ناممکن درخت۔ 

’’یہاں دیوار تو نظر ہی نہیں آتے ہیں۔‘‘ گریس نے ناگوار خاموشی کا سلسلہ ختم کیا۔ 

’’ہاں ڈارلنگ۔‘‘ کملا نے گریس کے بالوں پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا۔ ’’البتہ اوپر اوپر کہیں کہیں دیوار ہیں۔ ورنہ یہاں تو زیادہ تر شاہ بلوط۔۔۔‘‘ 

’’مجھے شاہ بلوط سے سخت نفرت ہے۔‘‘ شیام نے کہا اور ایک موڑ پر پھر اس نے گریس کے جسم کاہلکا سا لطیف دباؤ محسوس کیا اور اس کے جواب میں ہلکا سا دباؤ۔۔۔ لیکن گریس کملا کی طرف ذرا ہٹ گئی۔ 

’’ڈیش اٹ آل۔‘‘ شیام کے ذہن نے ایک فرضی سگریٹ کا کش لیتے ہوئے سوچا، ’’ اب یہاں اوپر تو اتنی گرمی بھی نہیں۔ یہ عورت کیوں سرک کے ہٹ گئی۔۔۔ یہ عورتیں۔۔۔ یہ عورتیں۔۔۔ یہ ہمیشہ غلط کام کرتی ہیں۔ کملا آکے لپٹتی ہی جائے گی۔ گریس ہٹتی ہی جائے گی، ‘‘ کہ اتنے میں ایک موڑ اورآیا۔ 

پہاڑ کے موڑ اور جسم کا مدافعانہ سمٹاؤ کم ہوتا گیا۔ یہاں تک۔ یہاں تک۔ 

کہ کملا کی نظر جو پڑی تو شیام اور گریس ٹانگ سے ٹانگ بھڑائے بیٹھے تھے۔ ایک لمحے کے لیے نینوں کے بان زہرآلود ہوگئے۔ شیام کے لاشعور میں اس زہر سے ہلچل سی مچ گئی۔ برقی رو دفعتاً رک گئی۔ اس کی ٹانگ ہٹ گئی اور موٹر کی رفتار تیز ہوگئی۔ گریس کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی اور کملا کے چہرے پر مکاری کی انتہائی پرخلوص مسکراہٹ ’’ہاں ڈارلنگ۔ مسز ساجد علی کی پارٹیوں میں جاتے ہوئے میں کانپتی ہوں۔ ایک دن سیر کے بعد انھوں نے ڈاکٹر تلجاپورکر سے میرا تعارف کرایا اور ڈاکٹر تلجاپورکر نے جھپٹ کے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ گریس ڈارلنگ۔ یقین مانو اس شخص نے ہاتھ سے پلاؤ اور قورمہ کھایا تھا اور ہاتھ شاید رومال میں پونچھ لیا ہو۔ لیکن دھویا ہرگز نہیں تھا۔ تمام چکنائی ویسی ہی لگی ہوئی تھی۔ خود میرے ہاتھ سے تین دن تک اس چکنائی کی بو نہ گئی اور مجھ سے کھانا نہیں کھایا گیا۔ شیام سے پوچھو کیوں ڈارلنگ تم کو یاد ہے نا؟‘‘ 

جھوٹی ہنسی موڑ پر شاہ بلوط کے درختوں میں گونجی۔ ’’ہاں ڈارلنگ مجھے یاد ہے۔ لیکن ڈاکٹر تلجاپورکر بڑے قابل آدمی ہیں۔ انھوں نے صوبہ مدارس کے حق خود ارادیت پر جو کتاب لکھی ہے، بڑی دلچسپ ہے۔‘‘ 

’’سچ مچ ڈارلنگ، مجھے بڑی شرم آتی ہے گریس ڈارلنگ۔ آج کل مجھ سے پڑھا نہیں جاتا۔ میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی اور شیام پیارے تم کو یاد ہے۔ وہ مصنف جو ہمارے یہاں گزشتہ سال لنچ پر آیا تھا؟‘‘ 

’’کون کراکا۔‘‘ 

’’نہیں، بیوقوف۔ نہیں شیام ڈارلنگ۔ وہ انگریز مصنف جو آیا تھا۔ بیورلی کچھ بیورلی ہلز نہیں وہ تو ہالی وڈ والی پہاڑی ہے۔‘‘ 

نقرئی قہقہوں میں ہلکے سرخ ہونٹوں کے پیچھے سے تیز گوشت خوردانت نمودار ہوئے۔ 

’’بیورلی نکلس۔ یقیناً۔‘‘ اسٹیرنگ وہیل کے ناخدا نے موڑ پر اس خوبی سے اپنا توازن باقی رکھا کہ ران ران سے اور گھٹنا گھٹنے سے مس نہ ہونے پائے۔ حالانکہ موڑ اتنی شدید قسم کا تھا (یا اگر موڑ مونث ہے تو تھی) کہ کملا اور گریس ایک دوسرے سے قریب قریب بغل گیر ہوگئیں۔ 

’’ہاں بیورلی نکلس۔ اس نے اپنی کتاب بھی بھیجی تھی۔ وہ بھی میں نے نہیں پڑھی۔‘‘ اور کملا شریر بچے کی طرح ہنسنے لگی۔ 

’’ڈارلنگ ڈارلنگ۔‘‘ شیام نے تنبیہ کے لہجے میں کہا، ’’میں تمہیں شدت سے منع کرتا ہوں کبھی اس کتاب کی تعریف نہ کرنا اور اگر سوسائٹی میں کبھی اس کا ذکرآجائے تو اس کی سخت مذمت کرنا۔ وہ کتاب بڑے تعصب سے لکھی گئی ہے۔ دیکھو یاد رکھنا۔‘‘ 

’’کیوں ڈارلنگ کیا وہ بہت بری کتاب ہے؟‘‘ 

’’ہاں۔‘‘ 

’’تب تو میں اسے ضرور پڑھوں گی۔‘‘ اور کملا نے بچوں کی طرح تالیاں بجائیں۔ 

اسٹیرنگ وہیل پر پھر سخت ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگئی اور دونوں ہونٹ بھنچ گئے۔ ’’ایک دن میرے ہاتھوں تمہارا۔۔۔‘‘ 

’’ خون ہوگا۔‘‘ کملا نے ہسٹریائی قہقہے کے ساتھ جملہ پورا کیا۔ ’’شیام کبھی تو جدت دکھاؤ۔ یہ دھمکی تو تم مجھے ڈیڑھ سال سے برابر ایک دن آڑ دیے جارہے ہو۔‘‘ 

گریس نے جلدی سے پہاڑی کے اوپر اشارہ کیا اور بے شک چوٹی سے نیچے دور تک اترتا ہوا جادو کاشہر صاف نظرآرہا تھا۔ منصوری، سوئٹزرلینڈ کا کوئی پہاڑی قصبہ جو ہمالیہ کے جنوب میں چھ ہزار فٹ کی بلندی پرآباد کردیا گیا ہو، وہی طرز تعمیر۔ ویسی ہی شیشے کی کھڑکیاں۔ وہی چوٹی سے منزل بہ منزل اترتے ہوئے مکانات، وہی پہاڑی پگڈنڈیاں، وہی ہلکی ہلکی دھند۔ 

’’دیودار۔‘‘ کملا تالیاں بجاکے پھر طفلانہ خوشی سے چلائی۔ 

سورج نے دماغ پر گرمی کے ہتھوڑے مارنے چھوڑ دیے تھے۔ کھجوروں اور کھجور نما درختوں کی دنیا سے کئی ہزار فٹ اوپر یہ نئی دنیا آباد تھی۔ دیودار اگرچہ کم تھےمگر سچ مچ کے دیودار۔ ویسے نقلی دیودار نہیں جو بنگلور میں گریس کے گھر پر کرسمس کو منور ہوتےتھے۔ 

’’یہ مقام ایسا برا تو معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ گریس نے دفعتاً سنجیدہ ہوکر کہا۔ 

’’نہیں، بالکل نہیں، میں نے اب تک جتنے ہل اسٹیشن دیکھے ہیں ان سب میں مجھے یہی سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ 

’’لو ڈارلنگ ہم پہنچ ہی گئے، ‘‘ شیام نے کملا کی طرف دیکھا جو دیوداروں اور اس بلندی کے دوسرے درختوں کی خنک خوشبو سے مست ہوئی جارہی تھی۔ 

اور ایک اور شاندار موڑ کے بعد سنتری نے ہاتھ کااشارہ کیا اور وہاں جہاں سب گاڑیاں کھڑی ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر یک سرے موئے برترپرم۔۔۔ تو پھر۔۔۔ تو پھر۔۔۔ صوبے کے گورنر اور ہرکس و ناکس میں کیا فرق باقی رہ جائے۔ 

(۲) 

پہاڑ 

خدا نے انسان کو اپنی صورت کے مطابق بنایا۔ خدا نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا اور انسان نے انسان کو بندر بنایا، کتابنایا، خنزیر بنایا، بیل بنایا، گدھا بنایا۔ ایک انسان دوسرے کو ’’الو کا پٹھا‘‘ اور ’’گدھا‘‘ کہہ کے خوش ہوتاہے اور وہ جو الو کا پٹھا یا گدھا کہاجاتا ہے۔ برا تو مانتا ہے مگر اس گالی کو اس قدر سخت نہیں سمجھتا جیسے اس گالی کو جس میں کسی قریبی عزیزہ کی ذلت کی جائے۔ پہاڑوں پر انسان نے انسان کو گھوڑا یا گدھا یا بیل۔۔۔ جو سمجھ لیجیے وہ۔۔۔ بناکے اسے سواری میں جوتا ہے جو سواری یہ جتا ہواانسان کھینچتا ہے۔ وہ رکشا کہلاتی ہے، جس طرح امیر آدمی اپنی بگھیوں کے گھوڑوں کو زرین جھول پہناتے ہیں، اسی طرح راجے مہاراجے اپنے رکشا کھینچنے والوں کو زرین وردیاں پہناتے ہیں۔ مگر کرائے کے ٹٹو کی طرح کرائے کا رکشا کھینچنے والا غلیظ اور بدبودار ہوتا ہے۔ خارشی ہوتا ہے اور بہت سی ایسی بیماریوں کاشکار ہوتا ہے جن سے ٹٹو محفوظ ہوتے ہیں۔ کرائے کے ٹٹو کو چینہ اچھا ہی مل جاتا ہے۔ کیونکہ انسان اگر جانور کا مالک ہوتو بے زبان جانور پر رحم کرتا ہے اور اگر کہیں انسان کا مالک انسان ہو تو پھر رحم کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہےکیوںکہ انسان سب جانوروں سے زیادہ دھوکے باز اور مکار ہےجبھی تو سلسلہ ارتقا کو دھوکا دے کر وہ اپنی دم صدیوں پیچھے چھوڑ آیا۔ جب ہی تو اس نے زبان اور عقل کو اپنا آلہ کار بنایا۔ اگر کہیں یہ رکشا کھینچنے والا کبھی محسوس کرنے لگے کہ میں صدیوں پیچھے اپنی دُم چھوڑ آیا ہوں، میری گدی میں عقل ہے۔ میرے منہ میں زبان ہے، میرے ہاتھ میں طاقت ہے تو پھر کیا ہو؟ اور رکشا کا مالک کانپ اٹھتا ہے۔ پھر نہ رکشا باقی رہے نہ رکشاکامالک۔ 

الغرض بے دُم کے چھ جانور رکشا میں بے دُم کے تین انسانوں کو نشیب کی طرف لے کے دوڑتے ہوئے، بلندی کی طرف پوری طاقت کے ساتھ کھینچتے ہوئے، شارل ویل پہنچا آئے۔ دیودار کے درخت ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ لیکن سروں پر آفتاب قیامت کی طرح نیزے بھر کے فاصلے پرنہ تھا، ابھی انسان کے حشر و نشر کا زمانہ دور تھا۔ بڈھے بڈھے کرنل اور ان کی اپنی اور زیادہ تر دوسروں کی بیویاں کافی پی رہی تھیں اور سب کی سب ایک ساتھ باتیں کر رہی تھیں۔ 

آدھے گھنٹے کے بعد شیام نے بیر کا دوسرا گلاس ختم کرکے کملا سے کہا، ’’ڈارلنگ اگر دس منٹ اور ان بوڑھے کرنلوں کو میں بیئر پیتا دیکھتا رہا تو پاگل ہوجاؤں گا اور وہ تمہاری سہیلیاں، ڈپٹی کلکٹروں کی بیویاں، مجھے ڈپٹی کلکٹروں کی بیویوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘ 

’’چلو چلیں، مال تک ایک چکر لگا آئیں۔ کیوں گریس ڈارلنگ تم ہمارے ساتھ چلوگی؟‘‘ 

’’ہاں بڑی خوشی سے، میں اس سے پہلے کبھی مسوری نہیں آئی۔‘‘ 

’’لنچ باہر کہیں کھائیں گے۔‘‘ 

’’ہاں کملا ڈارلنگ، مجھے شارل ویل کے کھانے سے سخت نفرت ہے۔۔۔ بیرا، ‘‘ اور شیام اٹھ کےاپنی فیلٹ ہیٹ لانے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ 

مسوری کے پیچھے ہمالیہ کی ایک ذرازیادہ اونچی چوٹی پر برف کا بانکا تاج ہلکی شفاف دھوپ میں جگمگ جگمگ کر رہاتھا۔ کھڈوں میں اکے دکے دیودار، نیچے شاہبلوط کےدرختوں کو حقارت سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوکان میں ریشمی پائتابے پندرہ روپے جوڑے تھے اور دوکان کامالک کتھئی رنگ کے کھدر کی واسکٹ پہنے توند سہلارہا تھا۔ 

’’رام رام کیا لوٹ ہے۔‘‘ 

چھوٹے سے پُل پر ہوکر، چھوٹے سے چوبی زینے کو اور چوبی زینے سےنیچے کتابوں، پرچوں اور لکھنے پڑھنے کی دوکان کو راستہ جاتاتھا۔ جہاں سفید فام اینگلو انڈین بڑھیا ایک راجکماری کے ہاتھ پارکر قلم اور چاندی کی پنسلیں بیچ رہی تھی اور راجکماری کی کالی ساری پر ایک ایک فٹ قطر کے رو پہلے ستارے کڑھے ہوئے تھے۔ 

رشک اور نسوانی پسندیدگی سے کملا کی کالی رسیلی آنکھوں نے راجکماری کی طرف دیکھا، پھر مال کی دوسری دوکانوں کاجائزہ لینے لگیں۔ ایک نجومی کی دوکان پر بڑا سا ہاتھ تھا۔ قسمت، نجوم، ستارے، ہوروسکوپ، عملیات۔ 

’’گریس ڈارلنگ، آؤ اس نجومی کو اپنا ہاتھ دکھلائیں۔‘‘ 

’’کملا کملا۔۔۔‘‘ اور شوہر احتجاجاً خاموش ہوگیا۔ 

’’ڈارلنگ! میں تو ضرور اپنا ہاتھ دکھاؤں گی۔ تم نہیں آتے ہو نہ آؤ اور تم ہم لوگوں کے ساتھ ساتھ پھر کیوں رہے ہو؟ مجھے اور گریس دونوں کو کورسٹ خریدنے ہیں۔ تم اُدھر جاؤ، ہم اِدھر جاتے ہیں۔‘‘ 

’’میں کدھر جاؤں؟‘‘ 

’’میں بتاؤں؟ وہ تمہیں یاد ہے۔ اس طرح آتے ہوئے ہم نے ڈاکٹر علی کا سائن بورڈ پڑھا تھا۔ دل، ہسٹریا اور موٹاپے کا اسپیشلسٹ۔ شیام پیارے ذرا ڈاکٹر علی کے پاس ہو آؤ نا؟‘‘ 

’’ڈارلنگ کیا تمہارامدعا یہ ہے کہ میرا دل کمزور ہے یا مجھے ہسٹیریا ہے، حالاں کہ تم جانتی ہو، ہسٹریا تمہیں ہے۔‘‘ 

’’نہیں شیام پیارے دل تو تمہارے پاس ہے ہی نہیں۔ کمزور یا بے زور کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہسٹیریا مجھے سہی لیکن موٹاپا تو تمہیں ضرور ہے۔‘‘ 

’’گریس، کیا تمہارا خیال بھی یہی ہے کہ میں موٹا ہوں؟‘‘ 

’’نہیں شیام تم موٹے تو نہیں ہو۔‘‘ 

’’گریس، گریس، شیام کا دماغ مت خراب کرو۔ ان کا وزن ایک سو نوے پونڈ ہے تمہارے خیال میں جب تک ساڑھے تین سو پونڈ وزن نہ ہو۔ کوئی آدمی موٹا نہیں ہوسکتا۔ شیام پیارے مانو نہ مانو تمہیں اختیار ہے۔ خیردل، ہسٹیریا، موٹاپے کا اسپیشلسٹ نہ سہی اور کہیں ہو آؤ۔ گریس تمہارے سامنے کورسٹ انتخاب کرتے ہوئے شرمائے گی، کیوں گریس؟ شیام پیارے کیملس ہمپ کا ایک چکر نہ لگاآؤ۔ اونٹ کا کوہان کمر کاگھیر کم کرنےکے لیے مفید ہے۔‘‘ 

’’نوتھینک یو، یہ مال، کیملس ہمپ سے کیا کم ہے؟‘‘ 

’’تو میونسپل پارک سہی۔ سنا ہے وہاں اسنیپ ڈریگن کے پودے چھ چھ فٹ اونچے ہیں اور پھول۔ پھولوں کی تعریف ہی نہیں ہوسکتی۔ سولانگ۔۔۔ گڈبائی ڈارلنگ۔۔۔ ٹھیک پونے دو بجے ہیک مین میں۔ ایک میز ریزرو کرالینا۔ ادھر کونے کے کمرے میں، جہاں سے دیودار بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ بیچ کے ہال میں ہرگز نہیں۔۔۔ سولانگ۔۔۔ ڈار۔۔۔ لنگ۔‘‘ 

مسوری بھر میں یہی ایک سڑک اُسے پسند تھی۔ نیچے تپتے ہوئے دوزخ میں ڈیرہ دون کی سفید عمارتیں اور سبز درخت اور تارکول کی وہ حرافہ راجپور کے گلزار کی طرف سے آتی ہوئی اور اس کے سینے پر سینکڑوں فوجی لاریوں، بسوں، موٹروں کے ٹائروں کا مساس۔ اسی لیے تو سڑک کو مونث کہتے ہیں اور دور دور تک پہاڑ کے سلسلے پر پھیلی ہوئی کوٹھیاں۔ پگڈنڈیاں پہاڑوں پر چڑھتی ہوئی، اترتی ہوئی، درختوں کے جھنڈوں میں چھپتی ہوئی، نمودار ہوتی ہوئی۔ ہیک مین گرینڈ ہوٹل کی عمارت میں ساڑی کی وہ دوکان جہاں سے راجکماری نےفٹ فٹ بھر کے قطر کے روپہلے تاروں والی ساڑی خریدی ہوگی اور دوسری جانب چاکلیٹ، کینڈی، چوسنے کا گم۔۔۔ میٹھائی، مٹھائی۔۔۔ مٹھائی سے اُسے سخت نفرت تھی۔ جہاں ایک پگڈنڈی جزیرہ بن گئی تھی، وہاں لاریاں ہی لاریاں اور موٹریں۔ کسی مہاراجہ کی رولس رائس اور اس کی اپنی ٹوسیٹر۔ اس نے لکی اسٹرائک آہستہ آہستہ سلگایا اور جنگلے کاسہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ 

میلے کچیلے بدبودار رکشا قلی کچھ دور پر بیٹھے گانجہ، چرس یا اسی قسم کی کوئی نشہ آور چیز پی رہے تھے۔ جنگلے کے پاس کچھ فاصلے پر چھ سات امریکن سپاہی، آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے۔ سب کے سب یہودی تھے۔ سب کی ناکیں لانبی اور بال بالکل کالے تھے۔ ’’شلومیل‘‘ ان میں سے ایک لمبی ناک والے نے دوسرے لمبی ناک والے سے کہا۔ نیچے تارکول کا لانبا سانپ بل کھاتا ہوا، پیچ درپیچ، خم بہ خم۔ مسوری کی کالی زلف، جو چارہزار فیٹ نیچے اترتی چلی گئی اور اس پر بند چھت کی ایک کالی موٹر جوں کی طرح رینگتی ہوئی۔ اُدھر اس کے سامنے سے دو خوش پوش سکھ اور ان کے درمیان گلابی سوٹ پہنے ایک بڑی خوبصورت عورت گزری۔ ’’کتابیں؟ کیڑی کتابیں؟‘‘ لدھیانے کے لہجے میں اور لاہور کے لہجے میں ذرا فرق ہے۔ کملا کے ساتھ دن رات رہ کے اس نے اس فرق کااندازہ لگایا تھا۔ پہاڑی راستے کےپیچ و خم کے قریب کسی عمارت کی سبز زردیں چھت روشنی میں جگمگائی اور دور بہت نیچے ڈیرہ دون کے دوزخ کو ابر کےایک ٹکڑے نے تھوڑی دیر کے لیے سائے میں لے لیا۔ ادھر دور پہاڑی دھند، بہت ہلکی سی دھند ایک موہوم سے جسم کے جانور کی طرح اوپر اٹھی، ایک انگڑائی لی اور اوپر کی طرف غائب ہوگئی۔ ایک ادھیڑ انگریز عورت کے ساتھ ایک ہندوستانی نوجوان ہاتھ میں ہاتھ دیے گزرا۔ لیڈی ارون کالج کی تین خوبصورت چڑیلیں قدم سےقدم، شلوار سےشلوارملائے، ادھر دیکھ کے ہنسیں اور بیچ والی نے فقرہ چست کر ہی دیا۔ ’’اس کی ماں معلوم ہوتی ہے۔‘‘ شیام نے لکی اسٹرائک کاایک ہلکا سا کش لے کے آنکھ ماری اور بیچ والی خوبصورت چڑیل ہونٹ بھینچ کے اپنی ساتھیوں سےکچھ بولی، پھر تینوں کچھ بولیں پھر تینوں کی چھ چمکدار آنکھوں نے شیام کی طرف دیکھا۔ تین خوبصورت ہونٹوں کےجوڑے کھی کھی کھی ہنسے اور لیڈی ارون کالج کی شریر خوبصورت چڑیلیں سامنے کی پگڈنڈی پر چڑھنے لگیں۔ شیام نے آہستہ سے ہاتھ ہلایا لیکن قدم سے قدم، شلوار سے شلوارملاتے تینوں پریاں اوپر چڑھتی ہی چلی گئیں، جہاں مکان کی، شیشے کی کھڑکیاں آدھی کھلی ہوئی تھیں۔ پھر کلکتہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب اپنی ایک پارسن شاگرد کے ساتھ گزرے جو کہہ رہی تھی، ’’بال ترشوانے کے اور بہت سےفائدے ہیں۔ پروفیسر آپ کوآرمی ہیر کٹ کی ضرورت ہے۔ آخر آپ چھ چھ ماہ تک بال کیوں نہیں ترشواتے۔ کیا محض اس لیے کہ جوفوج ہندوستان پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وہ پابندی سے ہر آٹھویں روزبال ترشواتی ہے اور آپ اس کو بدیسی طریقہ سمجھتے ہیں؟‘‘ پروفیسر صاحب جو اب جنگلے کے قریب کھڑے نیچے کا منظر دیکھ رہے تھے، ہنسے۔ کھدر کی قمیص کی جیب سے پان نکال کے کھایا، اونی شال جو وہ اوڑھے ہوئے تھے، اسے پھر سے اوڑھا۔ 

اپنی پارسن شاگرد کے گال پر ہلکی سی چٹکی لی۔ ’’ٹھہر میں تیرے باپ سے شکایت کروں گا کہ مہرو اب مجھے بنانے لگی ہے۔‘‘ مہرو اپنے وینٹی کیس سے پاؤڈر بکس نکال کے اپنی صورت پر غازے اور سرخی کے تناسب کااندازہ لگا رہی تھی۔ ’’پروفیسر کم سے کم کھانے سے پہلے اپنے بال تو ٹھیک کرلیجیے۔ یہ لیجیے آئینہ۔‘‘ پاؤڈر بکس کےآئینے میں اپنی صورت دیکھ کے پروفیسر نے اپنے ہاتھ سے اپنے بال تو ٹھیک کیے اور پاؤڈر کیس کو اس بے احتیاطی سے بند کیا کہ ہلکاگلابی رنگ کا پاؤڈر فضا میں اور مہرو کی پارسی وضع کی ہلکی نارنجی ساڑھی پر بکھر گیا۔ ’’اوہ پروفیسر۔‘‘ اس نے ذرا احتجاج اور شوخی سے کہااور پروفیسر کے ساتھ سیوائے کی طرف چلی گئی۔ اسی اثنا میں ایک رکشا پر چودہ پندرہ برس کی ایک نوجوان لڑکی ڈھیلے پاپنچوں کاپاجامہ پہنے، ڈھلکی ہوئی اوڑھنی کمر پر ڈالے، نیم دراز، ہرکس و ناکس، ہر نوجوان سےآنکھیں ملاتی اور مسکراتی رکشا میں بہتی ہوئی چلی گئی۔ تب شیام نے گننا شروع کیا۔۔۔ اینگلو انڈین عورتیں زیادہ، اور ہندوستانی کم۔ مگر یہ عورت رام رام بنارس کا ہندو حسن۔ بھگوان نے اسے مٹی سے نہیں مکھن سے بنایا ہے۔ مکھن کا جیسا رنگ، اجنتاکی دیویوں کی جیسی آنکھیں، بھاری بنارسی ساڑھی۔ ’’بھابی جی، آپ نے وجے لکشمی کا وہ نیا بیان پڑھا؟‘‘ پھر تین اینگلو انڈین لڑکیاں، پھر ایک شلوار۔ پھر تین سکھ اور دو سکھنیاں پھر یہ مدراسن نوگز کی سوتی ساڑی، چمپئی، رنگ زیادہ تر صورتیں واہیات، اس نے بجھتے ہوئے سگریٹ سے دوسرا لکی اسٹرائک سلگایا۔ کبھی کبھی ایک آدھ صورت لبوں پر سرخی اور رخساروں پر غازہ لگائے بغیر بڑی سانولی سلونی معلوم ہوتی اور نیچے کے تپتے ہوئے میدانوں کی پری کی طرح ساڑی میں لپٹی آہستہ آہستہ موڑ پرنظر سے غائب ہوجاتی۔ نیچے پہاڑی راستے اُترتے چڑھتے، بل کھاتے، خم کھاتے، آس پاس کی پہاڑیوں کے سینکڑوں خوبصورت بنگلوں کی طرف غائب ہوجاتے۔ ایک بھاری بھرکم میم صاحب ایک نجومی سےکہہ رہی تھیں، ’’اچا باٹ ہے ہم تمہارےگھر پر آنے مانگٹا۔ ہم انام دے گا۔‘‘ اور شیام نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ اب کملا کو آنا چاہیے۔ میم صاب۔ کراچی مچاچا۔ لندن میں ۱۰۶۶ء وغیرہ وغیرہ۔ پھر سکھ ہی سکھ آئے۔ طرح طرح کے خوش پوش سکھ، کچھ جو نیلے فلالین کے پتلون اور بڑے اچھے سلے ہوئے کوٹ پہنے تھے اور ان کے ساتھ بڑی فیشن ایبل وضع کی شلواریں پہنے ہوئے سکھ عورتیں۔ شیام نے لکی اسٹرائک کا ایک اور کش لیا۔ دو خوبصورت سے چہرے ہلکے سنہرے بال، گلابی رخسار۔ پھر نیلے یونیفارم پہنےچھوٹی چھوٹی انگریز لڑکیاں ادھر سے گزریں۔ پھر دو میم گزریں، جن میں سے ایک کے جوزئی رنگ کے بال آنکھوں میں کھب گئے۔ کمخواب کی شیروانی پہنے۔ سر پر اسی کپڑے کی ٹوپی اوڑھے حنائی داڑھی سےچہرہ منور کیےہوئے ایک صاحب جو غالباً رام پور کے رہنے والے ہوں گے، قریب سے گزرے۔ اب آفتاب کی چمک ذرا تیز ہوگئی۔ ایک قبول صورت بھولی بھالی سانولی سی لڑکی ایک نوجوان کے ساتھ خاموش چلی جارہی تھی۔ مولانا نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ ایک اینگلو انڈین شیام کے بالکل قریب سےہوکر گزری اور آنکھ لڑاکے مسکرائی۔ شیام نے پھر لکی اسٹرائک کا ایک کش لگایا، مسکرایا۔ ہنسی تو پھنسی۔ ایک چھوٹی موٹی خاتون جو لکھنؤکے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ کوئی تیس سال کی عمر ہوگی۔ سفید ساڑی پہنے، کمر لچکاتی، بالکل میدے کی لوئی جیسی صورت قریب سے گزریں اور اگر شیام کو سگریٹ کے دھوئیں میں دھوکانہیں دیا تو انھوں نے بھی یقیناً آنکھ لڑائی۔ جنگلے کے پاس ایک لمحے کے لیے ٹھہر کےنیچے سڑک کے پیچ و خم کاملاحظہ فرمارہی تھیں کہ اتنےمیں ایک مانوس آوازنے شیام کی گھورتی ہوئی آنکھ اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے ہونٹوں کو جھنجھوڑ کے بیدار کردیا۔ 

’’یقیناً مسٹرشیام سندر کول آپ مجھے پہچانتے ہی ہوں گے۔ میرا نام کملا کماری کول ہے اور اب سے ڈیڑھ سال پہلے، آپ کو یاد ہوگا میری آپ کی شادی ہوئی تھی۔ اس وقت مجھے سخت بھوک لگی ہے۔‘‘ 

لکھنؤ کی خاتون نے یہ دیکھ کر کہ مدعیہ کا دعویٰ زوردار ہے، فرار کی ٹھانی اور پان چباتی ہوئی بائیں جانب سوائے کی طرف چل دیں۔ 

گریس نے کہا، ’’میں اس قدر تھک گئی ہوں کہ اب گرنے ہی والی ہوں۔‘‘ 

ہیک مین میں دسترخوان ذرا سا میلا تھا۔ رکابیاں بھی میلی ہی تھیں۔ بیرے کام میں ذراسست تھے۔ گورے بہت زیادہ تھے۔ باقی ہر چیز بہت اچھی تھی۔ کھانا مزے کا تھا۔ ملی گی ٹانی سوپ۔ کولڈ میٹ اور اس کے ساتھ بے مثل سیلڈ جس میں پیاز کے ٹکڑے بھی شامل تھے۔ 

’’سیلڈ تو بالکل آسمانی ہے۔‘‘ گریس نے مزے لے لے کر کہا اور آخر میں اسٹرا بیری اور کریم۔ لیکن سب سے زیادہ دلچسپ جو چیز تھی وہ قریب کے میز پر ایک عورت تھی جو بالکل کارمین میرانڈا کی نقل معلوم ہوتی تھی۔ اس میز کے ’’باسی‘‘ کسی عجیب وغریب زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ 

’’بیرے بیرے۔‘‘ کملا نے آواز دی۔ 

’’کیوں، کیا ہے؟‘‘ 

’’شیام تم تو بیرے نہیں ہو نا؟‘‘ 

’’نہیں مگر کیا کام ہے؟‘‘ 

’’میں یہ پوچھوں گی کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کیوں بیرے یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ 

’’جی یہ ہمارے ملازم ہیں۔‘‘ 

’’تمہارے ملازم ہیں؟‘‘ بیرا کشتی اٹھائے اٹھائے ہنسا۔ ’’جی ہجور میرا یہ مطبل نہیں کہ میرے ملازم ہیں۔ ہجور یہ ہمارے ہوٹل کے ملازم ہیں۔ یہ عورت ڈانش کبریٹ کا کام کرتی ہے۔‘‘ 

’’اچھا، اچھا۔ جاؤ، کافی لاؤ۔‘‘ شیام نے کہا۔ 

گریس بولی، ’’یہ عورت غالباً پول ہے؟‘‘ 

’’رومانی زبان فرانسیسی سے ملتی جلتی ہے۔‘‘ اور اسی درمیان میں ایک آدمی نے جو بھورے کوردورائے کا پتلون اور سفید پولو شرٹ پہنے تھا، اس کے شانوں پر ہاتھ گڑادیے کوئی مذاق کی بات کہہ رہا تھا اور وہ عورت اپنے کولہے مٹکا رہی تھی اور قینچی کی طرح برابر زبان چلائے جارہی تھی۔ 

کافی کا چمچہ نیچے گرا اور کملا اسے اٹھانے کے لیے جھکی۔ شیام اور گریس دونوں ابھی تک رومانوی عورت کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے جو کولہے مٹکاتی جاتی تھی اور قینچی کی طرح زبان چلائے جارہی تھی۔ اور چمچہ اٹھاتے میں کملانےدیکھا گریس اور شیام دونوں کے پیر اس رقص کے سرپر تھرک رہے ہیں جس کو ہال میں ہوٹل کا آرکسٹرا بجارہا تھا۔ لیکن تھرک اس طرح رہے ہیں کہ بار بار دونوں کے جوتے ایک دوسرے سےلپٹ لپٹ جاتے ہیں اور جوتے کبھی کبھی ٹخنوں سے بھی لڑجاتے ہیں مگر رقص کی تھرک جاری ہے۔ جلدی سے وہ سیدھی بیٹھ گئی اور ایک گہری شک کی نظر سے اس نےاپنے شوہر اور اپنی سہیلی کی طرف دیکھا۔ پھر کھڑکی سے باہر اس کی نظر دیوداروں پر پڑی۔ جن کے گہرے سبز حسن نے اس کی آنکھوں کوموہ لیا۔ باہر دھوپ بھی بڑی آب و تاب، بڑی خوبصورتی سےچمک رہی تھی اور ہوا میں جھاڑیوں اور بیلوں کی ٹہنیاں آہستہ آہستہ رقص کر رہی تھیں۔ ہوا کے آرکسٹرا کا سر زیادہ معلوم تھا۔ اس میں ٹہنیاں ٹہنیوں سےمل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی پھنس جاتی تھیں۔ مگر ٹخنوں اور جوتوں کے میل کی طرح ان میں کسی طرح کا تصنع نہیں تھا۔ کسی میز کے دسترخوان کے نیچے پناہ لینے کی ضرورت نہیں تھی اور کملا نے اپنے دل میں درد کی ایک عجیب کسک محسوس کی۔ کالی رسیلی آنکھیں شیام کے چہرے پر جم گئیں اور اُن میں پانی چھلکنے لگا۔ 

’’کیا ہوٹل کو واپس چلوگی؟‘‘ 

کملانے کوئی جواب نہیں دیا۔ وینٹی کیس آڑے آیا۔ پاؤڈر پف نے گالوں پر غازہ لگاتے لگاتے اُن آنسوؤں کو بھی اچک لیا جو گرنےہی والے تھے۔ 

شیام نے چند سیکنڈ کے بعد کہا، ’’اکسلسیر میں اچھا فلم ہے۔ شوٹنگ سائرن مٹینی میں چلتی ہو؟‘‘ 

’’میں نے اُرمیلا اور پریش سے ملنےکاوعدہ کیا تھا۔ میں ان سےملنے جاتی ہوں تمہاری خوشی ہوٹل جاتے ہو، ہوٹل جاؤ۔ سنیما جاتے ہو، سنیما جاؤ۔‘‘ 

گریس بولی، ’’کملا ڈارلنگ، اپنی سہیلی سے پھر مل لینا۔ سنیماچلو، فلم بہت اچھا ہے۔‘‘ 

’’تو تم دونوں سنیماجاؤ۔ میں توارمیلا سے ملنےجاؤں گی۔ تین سال سےمیں نے ارمیلا کونہیں دیکھا۔‘‘ 

شیام نے کہا۔، ’’کملا پیاری۔‘‘ اور اس نے اپنی بیوی کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسو نہیں دیکھے۔ 

کملا نے گھڑی دیکھی اور جھوٹی ہنسی ہنسنے لگی۔ آنسو بلا چھلک کے گرے ہوئے محض قوت ارادی سے کہیں غائب ہوگئے۔ 

اور ارمیلا کے پاس بھی کسی طرح اُس کا جی نہیں لگا۔ ارمیلا اور پریش نے چائے کے لیے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے یہی بہانہ کیا کہ شیام سےمیں نے سنیما کے بعد ملنےاورساتھ چائے پینے کا وعدہ کیا ہے۔ 

اکسلسیر میں میٹنی ختم ہونے میں ابھی گھنٹہ بھر کی دیر باقی تھی۔ کھوج، جلن، کھوج، جلن، ’’بابوجی ٹکٹ مل سکیں گے۔‘‘ 

’’جی، مگر فلم تو آدھے سے زیادہ دکھایا جاچکا ہے۔ خیر اگر آپ دیکھنا ہی چاہتی ہیں تو ذرا ٹھہریے۔ ہاں سنیے، بالکونی، صرف بالکونی میں ایک دو جگہیں خالی ہیں۔ یہ لیجیے، جی تین روپے بارہ آنے۔‘‘ 

اندھیرا ہی اندھیرا۔ شاید دماغ میں اندھیرا تھا۔ آنکھوں میں دھند بھری تھی اور دماغ کی ایک رگ زور زور سے دھڑک رہی تھی، اس نے پھر آنسو پونچھے۔ فلم، اب صاف نظر آرہا تھا او روہ فلم دیکھنے میں محو ہوگئی اور پھر وہ سلسلہ خیالی میں کھو گئی۔ اب سے چار برس پہلے جب وہ ولسن کالج بمبئی میں ایم اے میں پڑھتی تھی۔ بس گرانٹ روڈ پر رکی تھی اور ایک ریلا اسے بس کے اندر بہالے گیا جہاں اتنی بھیڑ تھی کہ کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہ تھی۔ گندی سڑی ہوئی سانسوں میں اسے عجیب کراہت معلوم ہوئی۔ اتنےمیں سامنے سے ایک نوجوان نے ہٹ کے اس کے لیے جگہ بنادی۔ ’’آپ آرام سے کھڑی ہوجائیے۔‘‘ نوجوان اپنے دونوں ہاتھوں سے آہنی ریلنگ پکڑ کے کھڑا ہوگیا اور وہ خود بے جان سی ہوکے اس کے سہارے کھڑی ہوگئی اور پھر جو بس آگے بڑھی تو اس نے محسوس کیا کہ نوجوان کا جسم اس کے جسم سے چمٹا ہوا ہے۔ اس کے کالے لہراتے ہوئے بال نوجوان کے کندھوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس کی پشت، کولہے، پیر سب اس کے جسم کے سہارے قائم ہیں اور اس نے ایک برقی رو اور ایک آگ سی محسوس کی جس میں وہ پگھلنے لگی۔ آگے جہاں بس ٹھہری وہاں بہت سے لوگ اتر گئے۔ کئی نشستیں خالی ہوئیں۔ وہ خود جھپٹ کے ایک ایسی نشست پر بیٹھ گئی جہاں پہلے ہلکے بھورے رنگ کے بالوں والی ایک اینگلو انڈین لڑکی بیٹھی تھی۔ وہ نوجوان جس کے جسم کے لمس نے اُس کےسارےبدن میں آگ لگادی تھی کسی دوسری نشست پر بیٹھ گیا اور اسے گھورتا رہا۔ محض اس کی نگاہوں سے بچنےکے لیے کملا نے اپنے بازو میں بیٹھی ہوئی اینگلو انڈین لڑکی سے پوچھا، ’’میں نے غالبا آپ کو کہیں دیکھا ہے؟‘‘ اینگلو انڈین لڑکی نے اس کی طرف دیکھا، ’’میں، آف کورس، میں ولسن کالج میں فورتھ ایر میں ہوں اور آپ شاید ایم اے میں۔‘‘ اور اس کے بعد دونوں گھل مل کے باتیں کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ چونی روڈپر جب نوجوان اتر کے چلا گیا تو کملا کو معلوم بھی نہیں ہوا۔ یہ اینگلو انڈین لڑکی گریس تھی۔ 

اور اب اندھیرے میں اسے گریس صاف نظر آئی، نیچے ڈریس سرکل میں۔ اس کے شانوں کے گرد کسی کا ہاتھ تھا، شیام کاہاتھ۔ وہی ہاتھ جو اس کے، کملاکے، جسم کے ہر نشیب و فراز، اس کی جلد کے ہر راز، ہر خال، ہر مسے، ہر نشان سے واقف تھا اور اس کی آنکھیں سنیما کے پردے سے ہٹ کر ادھر جم گئیں۔ گریس کے بھورے بال، سر کی جنبش کے ساتھ اور اس جلن کے باوجود کملا کو ماننا پڑا کہ گریس کے سر کی جنبش بڑی خوبصورت ہے، شیام کے سیاہ چکنے بالوں سے مس کرتی۔ سیاہ چکنےبال، جس میں خود اس کی اپنی، کملا کی اپنی انگلیاں بار بار کنگھی کرچکی تھیں۔ پھر اس نے شیام کے ہونٹوں کو گریس کے رخسار کا ہلکا سااچٹتا ہوا بوسہ لیتے دیکھا اور اس کا دل کسی اتھاہ سمندر کی تہہ کی طرف ڈوبنےلگا، ڈوبنےلگا۔ 

اب سے دو سال پہلے دلی جم خانہ میں شیام سے برج ٹیبل پر پہلی ملاقات ہوئی تھی اور شیام بھی تھوڑے ہی دن ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا کے اس محکمے میں انڈر سکریٹری مقرر ہوا تھا۔ روشن آرا میں ناچ اور ناچتے میں مدت کے بعد پھر وہی برقی رو، اسی آگ کااحساس جو بس میں اس اجنبی نوجوان کے جسم کے لمس سے پیدا ہوئی تھی۔ پھر میردرد روڈپر خود اس کے پتا کے مکان کی ٹی پارٹیاں۔ ڈے وی کو میں ٹھنڈے برف کے شربت اور موسیقی اور پھر چھ مہینے کے اندر بیاہ۔ 

اتنے میں کملانےمحسوس کیا کہ بازو کی نشست پر جو شخص بیٹھاہے، وہ اس کاہاتھ اس کے اپنے ہاتھ سے مس کر رہاہے۔ اس نے دائیں طرف ذرا کنکھیوں سے دیکھا۔ یہ ایک سردارجی تھے۔ نیلی فلالین کاقمیص، امریکن وضع کااسپورٹ جیکٹ، بڑی ہی اسٹریم لائنڈ داڑھی، اور دل کی ایک فوری بغاوت کے ساتھ جو ایک لمحہ اندر بھڑک کے غدر بن گئی۔ کملااسی طری بیٹھی رہی اور اس نے اپناہاتھ نہیں ہٹایا۔ 

اینگلز، اینگلز، اینگلز دو کالج کے زمانے کی اشتراکیت کے دن بھی کیا عجیب و غریب دن تھے اور اس دن مالتی سے جو لڑائی ہوئی تھی۔ مالتی اینگلز کا بار بار حوالہ دیتی تھی کہ ہر سوسائٹی میں جہاں عورتیں دبائی گئی ہیں، انھوں نے انتقام کاذریعہ ڈھونڈ ہی نکالا ہے۔ اب سردار جی کا شانہ اس کےشانے سے مس کر ہراتھا اور پورا بازو اس کے بازو سے۔ اس نے پھر بھی ہاتھ نہیں ہٹایا۔ انتقام کاذریعہ ڈھونڈ نکالاہے۔ اسی اثنا میں نیچے ڈریس سرکل میں پھر شیام نے گریس کے رخسار کااچٹتا ہوا بوسہ لیا اور کملا کا دل ڈوبنے لگا۔ اتھاہ سمندر کی گہرائیوں کی طرف وہ ہندوستانی جو اپنی عورتوں کو مکان کے پچھلے حصے میں بند رکھتے ہیں، وہ بھی انتقام کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈھ ہی نکالتی ہوں گی۔ لاہور میں اس کا بھائی اکثر کہا کرتا تھا، ’’گھونگھٹ میں لہر بہرہ برکے میں سارا شہر۔‘‘ یہ برقعہ۔ یہ کپڑے کا بھی ہوتا ہے اور خیالات اور فرائض اور ہندوستانی بیوی کے دھرم کا بھی بنا ہوا ہوتاہے۔ اب سردار جی کے ہاتھ نے اس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر اس نے وہی برقی رو محسوس کی جو اب سے چار سال پہلے بس میں اسی اجنبی نوجوان کے جسم کے لمس۔۔۔ لیکن اس نے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا۔ اینگلز۔ اینگلز۔ اینگلز۔ مگر الف لیلہ میں بھی تو اس قسم کے بہت سے قصے ہیں اور برقی رو بھڑک کے آگ کا شعلہ بن گئی۔ سردار جی کی کرخت انگلیاں اس کے سینے کے سخت جوان جوبن سے کھیلنے لگیں اور وہ کانپ گئی۔ اینگلز۔۔۔ اتنےمیں سدھے رخسار پر بے شمار بال چبھے۔ اس کی ناک نے بدبودار سانس کے ایک جھونکے کو محسوس کیا اور اس کے رخسار نے سردارجی کے بوسے کو اور برقی رویکلخت رک گئی۔ بھڑکی ہوئی آگ اس ایک جھونکے سے فرو ہوگئی۔ اب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں شیام کے سواکوئی نہ تھا۔ صرف شیام ہی شیام تھا۔ لیکن شیام کا بازو تو ابھی تک نیچے ڈریس سرکل میں گریس کے شانوں کے گرد حمائل تھا۔ 

وہ دفعتاً اٹھ کھڑی ہوئی اور ہانپتی ہوئی ہال سےباہر نکل آئی۔ بالکونی کے دوسرے تماشائی جو سردار جی کا تماشہ کنکھیوں سے دیکھتے رہے ہوں گے، اسے غور سے دیکھ کے سنیما کے پردے کی طرف پھر متوجہ ہوگئے۔ جہاں آخری ناچ ہو رہا تھا اور سینکڑوں لڑکیوں کا کورس پیر پٹک رہا تھا۔ 

سردار جی بھی پیچھے ہی پیچھے باہر نکل آئے۔ مگر یہ دیکھ کر ذرا چکرائے کہ وہ عورت جس نے انھیں اتنی آزادی برتنے دی، زینے کے قریب زاروقطار رو رہی ہے۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ جلدی جلدی سیڑھیاں اترکے ہیک مین کے احاطے میں غائب ہوگئی اور سردارجی وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ 

پانچ دس منٹ بعد وہ پھر آئی۔ سردار جی کی طرف اس نے نظر اٹھاکے بھی نہ دیکھا، سنیما کے باہر برآمدے میں شیام اور گریس کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ اس کےچہرے پر تازگی تھی اور اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ اور بڑاہی دلکش تبسم تھا، ’’شیام ڈارلنگ فلم کیسا تھا؟ گریس ڈارلنگ معاف کرناتمہیں انتظار کرنا پڑا مگر ارمیلا نے کسی طرح اٹھنے ہی نہیں دیا۔ چلو اب پونے چھ ہیں۔ وہیں شارل ویل میں چائے پیئں گے۔ رکشا، رکشا۔‘‘ 

اور سردارجی جو ہکا بکا یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے، کھڑے دیکھتے رہے۔ شیام اور گریس کو انھوں نے بھی ڈریس سرکل میں دیکھا تھا۔ ’’گریس ڈارلنگ، پہلے تم۔ میں بیچ میں بیٹھوں گی۔ مجھے ذرا زکام معلوم ہو رہا ہے اور اس کے سوا میری طبیعت چاہ رہی ہے کہ ذرا اپنے پتی کے پاس بیٹھوں۔ کیوں شیام یہاں مسوری میں تو اتنی گرمی نہیں۔‘‘ 

چھ جانور رکشامیں تین انسانوں کو لے چلے اور شیام نے کملا کی طرف دیکھا۔ کالی آنکھوں کے تیروں میں ملامت کاایسا زہر تھا کہ شیام کی نظریں گویا یہ کہہ کر جھک گئیں، ’’دیوی مجھے شما کرو۔‘‘ اور اس کے ہاتھ نے بے اختیار کملا کے ہاتھ کواپنی گرفت میں لے لیا۔ 

’’شیام ڈارلنگ، تم نے اینگلز کی سب کتابیں پڑھی ہیں؟‘‘ 

چھ جانور رکشا کو کھینچ رہے تھے۔ 

   1
0 Comments